ظالموں نے شریعت کا مذاق بنالیا
مسلمانوں میں نماز پڑھنے کے مختلف طریقے ہیں۔ ایک شخص سینے پر ہاتھ باندھتا ہے، اور دوسرا ناف پر باندھتا ہے۔ ایک شخص امام کے پیچھے فاتحہ پڑھتا ہے، اور دوسرا نہیں پڑھتا۔ ایک شخص آمین زور سے کہتا ہے، دوسرا آہستہ کہتا ہے۔ ان میں سے ہر شخص جس طریقے پر چل رہا ہے، یہی سمجھ کر چل رہا ہے کہ یہ نبیؐ کا طریقہ ہے اور اس کے لیے وہ اپنی سند پیش کرتا ہے۔ اس لیے نماز کی صورتیں مختلف ہونے کے باوجود دونوں حضورؐ ہی کے پیرو ہیں، مگر جن ظالموں نے شریعت کے ان مسائل کو دین سمجھ رکھا ہے انھوں نے محض انہی طریقوں کے اختلاف کو دین کا اختلاف سمجھ لیا۔ اپنی جماعتیں الگ کر لیں، اپنی مسجدیں الگ کر لیں، ایک نے دوسرے کو گالیاں دیں، مسجدوں سے مار مار کرنکال دیا، مقدمے بازیاں کیں اور رسولؐ اللہ کی امت کو ٹکڑے ٹکڑے کر ڈالا۔
اس سے بھی لڑنے اور لڑانے والوں کے دل ٹھنڈے نہ ہوئے توچھوٹی چھوٹی باتوں پر ایک نے دوسرے کو کافراور فاسق اور گمراہ کہنا شروع کردیا۔ ایک شخص قرآن سے یا حدیث سے ایک بات اپنی سمجھ کے مطابق نکالتا ہے تو وہ اس کو کافی نہیں سمجھتا کہ جو کچھ اس نے سمجھا ہے اس پر عمل کرے، بلکہ یہ بھی ضروری سمجھتا ہے کہ دوسروں سے بھی اپنی سمجھ زبردستی تسلیم کرائے، اور اگر وہ اسے تسلیم نہ کریں تو ان کو خدا کے دین سے خارج کر دے۔
(سید ابوالاعلی مودودی ؒ، خطبات)