\"مولانا مودودی اور عالَمِ عرب\"
ڈاکٹر پروفیسر سید رضوان علی ندوی کے قلم سے ۔ ۔ ۔
مولانا مودودی رحمۃ اللّٰہ علیہ کی فکری عظمت کا عربوں کی طرف سے بے محابا اعتراف کا میں ذاتی طور پر شاہد ہوں۔ ۱۹۵۶ء میں دمشق میں استاذ سعید رمضان مرحوم کی بلائی ہوئی موتمر اسلامی کی عالمی کانفرنس کے اختتامی اجلاس کے موقعے پر دمشق یونیورسٹی کے ہال میکافی بڑے اسٹیج پر عرب اور اسلامی ممالک کے وفود کے سربراہان بیٹھے ہوئے تھے۔ جن میں انڈونیشیا کے سابق وزیراعظم اور حزب ماشومی کے چیئرمین ڈاکٹر محمد ناصر عراق کے معمر اور نامور شیخ امجد الزہاوی اور دیگر عرب علما و زعما کے ساتھ مولانا مودودی اور مولانا سید ابوالحسن علی ندوی بھی مسند نشین تھے۔
شام کے ایک مشہور سیاسی ادیب اور عالم سابق وزیر الشئون الاجتماعیہ (وزیر سماجی امور) اور اس وقت ممبر پارلیمنٹ اور کلیۃ الشریعہ دمشق یونی ورسٹی میں میرے استاذ پروفیسر محمد المبارک مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی کو دعوت خطاب دینے اور ان کا تعارف کرانے اسٹیج پر آئے۔ انھوں نے مولانا مودودی مرحوم کا تعارف کراتے ہوئے ان کو ’غزالی عصر‘کے لقب سے یاد کیا جو میرے علم کے مطابق مولانا مودودی مرحوم کی خدمات کے اعتراف میں ایک ذمہ دار عرب عالم و مصنف کی طرف سے وہ اعزاز تھا جو بیسویں صدی عیسوی میں عالم اسلام کے کسی اور مفکر و مصنف کو نہیں ملا۔